ہاں اس کھجور کے تنے کو نسبت نبویﷺ حاصل ہوگئی تھی ‘کیا خوش قسمت تھا وہ تنا جس پر میرے آقا ﷺ بیٹھے… آپﷺ نے وہاںنشست فرمائی۔ آخر کار اس کھجور کے تنے کو اﷲ کے حبیب ﷺ نے دفن کرادیا ۔کھجور کے تنے کو میرے آقا ﷺ کے ساتھ نسبت ہوجائے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہے۔ کھجور کے تنے کو بھی جنت کا درخت بنادیا جائے اورمیرے آقا ﷺکا امتی جس کے لئے بشارتیں ہی بشارتیں ہیں وہ کملی والےﷺ کی لاج رکھ لے اور ان کے نام کی لاج رکھ لے اور ان کے ساتھ اپنی محبتیں اور نسبتیں بڑھالے… کیا اﷲ جل شانہٗ تجھے نہیں نوازیں گے؟ میرے دوستو! سوچیں تو سہی ذرا…!!!
اپنے عشق رسالتﷺ کامحاسبہ کریں :ٹھنڈے دل سے سوچیں! دل کی گہرائیوں سے سوچیں… میںسرور کونین ﷺ کے ساتھ کتنی وفا کررہا ہوں؟آپ ﷺکتنی وفا کررہے ہیں؟ ان نسبوں کی کتنی لاج رکھ رہے ہیں؟ جب نماز کا وقت آتا ہے ہمارے اندر کیا کیفیت …؟کیا بے چینی ہوتی ہے…؟
سچا سادہ عاشق رسول ﷺ افسر:پچھلے دنوں ایک صاحب کا خط آیا‘ میرے پاس حسبِ معمول ڈاک آئی‘ خط پڑھا تو خط نے پکارا کہ یہ کوئی باکمال شخص ہے۔ میں نے ان کو خط لکھا کہ مجھے اپنا نمبر بھیجیں‘انہوں نے نمبر بھیجا ۔ان سے ملاقات ہوئی دوسرے شہر سے آئے تھے ،وہاں کے کالج کے 20ویں گریڈ کے پرنسپل اور اتنے سادہ اتنے سادہ کہ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا جانتے ہو یہ 20ویں گریڈ کا افسر ہے ‘ میں نے کہا: اس کو سمجھ سکتے ہو یہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں ایسا لگتا ہے باہر ابھی چھابڑی چھوڑ کر آیا ہے ،اس شخص کے اندر میں نے جو نور دیکھا اور محسوس کیا اور جونسبتیں اس کے ساتھ تھیں (اﷲ اکبر)سرور کونین ﷺ کی غلامی اور میرے آقا ﷺکے ساتھ نسبت اس کے پل پل ،اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی ۔بہت دیر میں ان کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا ،انکا میں نے انٹرویو کیا، ان سے باتیں کرتا رہا اوریقین جانئے اس شخص کی زندگی کا کمال دیکھا جو اس کی زندگی میں نور تھا اور جو اس کی زندگی کے اندر سرور تھا۔ کہنے لگے: میری پچاس ہزار روپے تنخواہ ہے20ویں گریڈ کا آدمی ہوں اور جو فقیری ان میں دیکھی تو پھر ایک پل میں یہ شعر یاد آگئے۔
حبیب خدا دے فقیراں تو ںصدقے
فقیر اں دے روشن ضمیراں توں صدقے
نہ دولت توں صدقے نہ جنت توں صدقے
تیری زلف تے جاں اسیراں توں صدقے
جناں رومی جامی تے سعدی نوں ڈنگیا
میں انہاںپیاری اکھیاں تے تیراں توں صدقے
یقین جانئے یہ شعر تو اس اﷲ کے بندے پر پورا کا پورا ثابت اور فٹ آیا وہ محمدی ﷺ تھا… ہاں وہ تھا۔
ہماری تین اعلیٰ نسبتیں:تنے کو اگر نسبت ﷺمل جائے وہ بھی فراق میں روئے… کبھی ہم بھی آقا کملی والےﷺ کے فراق میں روئے ؟نہیں !میرے دوستو! اس لئے ان نسبتوں کو حاصل کریں ‘ہم تو بڑی نسبتوں کو حاصل کریں ہم تو بڑی نسبتوں والے ہیں‘ ہماری بڑی قیمتیں ہیں، ہم تو بہت بڑے ہیں ،ان نسبتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ 1۔اﷲ2۔ اس کے رسولﷺ 3۔اور اﷲ کے نیک بندوں کی نسبتیں ہیں، ہم تو بڑے مالدار ہیں۔
کتے کی نسبت اولیاء کے ساتھ :میرے دوستو !اپنی ان نسبتوں کی قدر دانی کریں‘ ان نسبتوں کو پہچانیں ہم تنے سے کمتر نہ ہوں ہم اصحاب کہف کے اس کتے سے کمتر نہ ہوں اس کتے کو نسبت ملی تھی نیک لوگوں کی۔
اصحاب کہف نبی نہیں تھے‘ رسول نہیں تھے‘ پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ ایک اﷲ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام تھے ۔ایمان بچانے کے لئے ہجرت کی‘ انہوں نے ایک چرواہا آگے کھڑا ہوا تھا وہ بھی ساتھ ہوگیا‘ چرواہا ساتھ ہوا تو اس کا کتا بھی ساتھ ہوگیا، کتا نیک لوگوں کے ساتھ چلا ان کا ادب کیا اس نے ان کو بھونکا نہیں ان کے ساتھ گستاخی نہیں کی ان اﷲ والوں کے پیچھے چلتا رہا۔
؎ ناں میں بھونکا ںناں میں ٹونکاں نہ میں شور مچاواں
نیکاں دے لڑلگ کے شایدمیںوی بخشا جاواں
پس وہ چلا صرف ان کے ساتھ محبت کی اس کتے نے وفاکی۔ کتے کو نسبت نیک لوگوں کے ساتھ ہوئی فرمایا قیامت کے دن اﷲ جل شانہٗ اس کتے کو جنت میں بھیج دیں گے ۔بعض روایات میں آتا ہے انسانی شکل میں ۔اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔
اونٹنی نسبت پرجنتی بن گئی :ارے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اونٹنی تھی اس کو حضرت صالح علیہ الصلوٰۃو السلام کی محبت اور آپ کا تعلق ملا آپکی نسبت ملی۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اس اونٹنی کو بھی اﷲ جل شانہٗ جنت میں داخل فرمائیں گے حالانکہ قیامت کے دن جانورں کا حساب کتاب برابرفرماکر اﷲ ان کو ختم فرمادیں گے ۔جنت تو انسانوں کی ہے۔ جنت تو حضور سرور کونین ﷺ کی امت کیلئے ہے اور دیگر امتوں کیلئے ہے۔
جانوروں سے توکمتر نہ بنیں:ایک اونٹنی کے ساتھ تو یہ شان ہوجائے اور ایک کتے کے ساتھ تو یہ شان ہوجائے ایک کھجور کے تنے کی حالت تو یہ ہوجائے میرے دوستو! کتے سے بدتر تو نہ بنیں…کھجور کے تنے سے کمتر تو نہ بنیں… ارے اونٹنی سے نیچے تو نہ جائیں… محمدی ﷺہیں… محمدیﷺ… ہماری نسبتیں محمدیﷺ ہیں…ہماری محبتیں محمدی ﷺہیں… ہمیں اس کملی ﷺوالے کیساتھ تعلق ہے‘ نسبت ہے‘ اس نسبت کی لاج رکھیں اس نسبت کا خیال رکھیں!
ہماری رسمی عادات کا خمیازہ :(الف )ایک صاحب آئے انہوں نے ایک بڑاعجیب کام کیا‘میںنے کہا: یہ کیوں کیا؟ کہنے لگے :ہمارے ہاں رواج یہی ہے ،میرے والد صاحب کہتے تھے میری لاج رکھنا
جو کام کر گیا ہوںیاکہہ گیاہوںوہ کبھی نہ چھوڑنا !کہنے لگے: میں ابا کے کام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا !
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں